Home

Services

Education

Contact Us

Nam O Nasab

شیخِ طریقت، امیرِاَہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد اِلیاس عطّارقادِری رَضَوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی ولادتِ با سعادت ۲۶ رَمَضانُ المبارَک ۱۳۶۹ ھ مطابق 12جولائی 1950ء بروزبدھ پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ (کراچی) کے علاقہ بمبئی بازارکھارا در میں وقتِ مغرب سے کچھ دیر قبل ہوئی ۔

میمن گھرانا: آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ایک بار دوران مدنی مذاکرہ خودارشادفرمایا ’’ ہند (انڈیا) میں ہندوقوم’’لوہانہ‘‘کی طرف غوث پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ کی اولاد میں سے ایک بُزُرگ سیِّدنا یوسُفُ الدین عَلَیْہِ رَ حْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن تشریف لائے اور لَوہانہ قوم میں نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچائیں ، جس کی بَرَکت سے ہماری برادری کے لوگ مسلمان ہوئے اور ’’مُومِن‘‘لقب پایا،جو بعد میں مومِن سے تبدیل ہوکر’’ میمن‘‘ہو گیا۔) رسالہ ابتدائی حالات،ص۱)

Abao Ajdad

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے آباواَجدادہند کے گاؤں ’’کُتیانہ‘‘(جُوناگڑھ)میں مقیم تھے۔ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے دادا جان ’’عبدالرحیم‘‘ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَرِیْم کی نیک نامی اورپارسائی پورے ’’کتیانہ ‘‘ میں مشہورتھی اورہر سُو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے حسنِ اخلاق کے چرچے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ انتہائی سادہ طبیعت اور مُنْکَسِرُالْمِزاج تھے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے مرحوم نانا جان کا نام حاجی محمد ہاشِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اور نانی جان کانام حلیمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِا تھا۔

سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا دامنِ کرم باب الاسلام سندھ کے ضلع ٹھٹھہ تحصیل شاہ بندر کے ایک پیرصاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ جو انتہائی منکسر المزاج اور صاحبِ تقویٰ بُزُرگ تھے۔ اُن کے قریبی مریدین کا کہنا ہے کہ ایک بار آپ نے ہمیں قریب بلا کر بتایا کہ رات میں سویا تو میری قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پیارے پیارے شہدسے بھی میٹھے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جلوہ فرما ہیں اور کسی خوش نصیب کو اپنے دامن میں بڑی محبت میں چھپا رکھاہے۔ میں نے عرض کی:’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ آپ کے دامن میں کونخوش نصیب ہیں ؟‘‘میری عرض سن کر پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لبِ مبارَک پر مسکراہٹ پھیل گئی۔لب ہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، رَحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے’’ یہ میرے دیوانے الیاس قادری کے والد ہیں۔ جو دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔‘‘ پیر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے دل میں امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ سے ملنے کا اشتیاق ہوامگر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ان دنوں ہند کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔ ا ُس کے بعد آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کی وفات تک ظاہری ملاقات کا سلسلہ نہ بن سکا۔ اُن کے قریبی مریدین و محبین کا کہنا ہے کہ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اسکے بعد سے مرید ہونے کی غرض سے آنے والوں کو یہ ہی ارشاد فرماتے کہ اب مرید بننا ہے تو جاکر امیرِ اَہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے ہی بنوپھر اصرار بڑھتا تو مرید بنا بھی لیتے مگر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی عقیدت کے جام بھی ساتھ ضرور پیش فرماتے۔ جب امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے کسی مرید کو پاتے تو ان سے دعائیں کرواتے۔ ایک بار امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی عقیدت و محبت کے غلبہ میں مریدین کو فرمایا :’’میں تو خود’’ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا فقیر ہوں۔‘‘ ننھاسا دل بھرآیا امیرِاہلِسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک مرتبہ کچھ اس طرح سے بتایاکہ’’میرےبچپن کے دنوں میں ایک بار گھر کے برآمدے کی طرف جاتے ہوئے اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ’’سبھی بچے کسی نہ کسی کی طرف باپا، باپا کہہ کربڑھتے ہیں اور اس سے لپٹ جاتے ہیں پھر ان کے باپا انہیں گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں ، انہیں شیرینی دلاتے ہیں اور کبھی کبھی کھلونے بھی دلاتے ہیں … کاش ! ہمارے گھر میں بھی باپا ہوتے ، میں بھی ان سے لپٹتااوروہ مجھے پیار کرتے ۔‘‘ اس بے تاب آرزو کی وجہ سے میرا ننھاسا دل بھرآیا اورجگر صدمے سے چُور چُور ہوگیااور میں نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ میرے رونے کی آواز سن کر میری بڑی ہمشیرہ جلدی سے وہاں آئیں اور اپنے ننھے یتیم بھائی کو گود میں لیکر بہلانے لگیں۔